تشبیب تھے ، تمہید تھے ما قبل کے اخیار

تشبیب تھے ، تمہید تھے ماقبل کے اخیار

اے مطلعِ دیوانِ ازل ، قافیہ انوار !

بے ربط ہُوا جاتا ہے سانسوں کا تسلسل

لازم ہے کہ ڈھے جائے ترے ہجر کی دیوار

بے وجہ نہیں پُرسش و رسوائی سے بے غم

ہیں برسرِ محشر ، مرے سرکار طرفدار

بکھرے نہ کبھی حرف کی حُرمت کا حوالہ

ٹوٹے نہ کبھی نعت سے نسبت کا یہ پندار

لب بستہ ترے سامنے ہے طائرِ منطق

دَم رفتہ ترے آگے ہے تدبیر کا رہوار

تجسیم ہُوئی پہلے کوئی ساعتِ رویت

پھر مجھ کو ودیعت ہُوا یہ دیدۂ بیدار

لاریب ہیں ہر خاکی و نوری سے فزوں تر

اے صاحبِ معراجِ حقیقت ! ترے اَسرار

لے آیا تو ہُوں بارِ معاصی سرِ محشر

بخشش کو ہے اب تیری شفاعت مجھے درکار

’’ لو لاک لما ‘‘ غایتِ تخلیقِ دو عالَم

ہر ایک کے ہونے کا سبب آپ ہیں سرکار !

اے مقطعِ دیوانِ ابد ، نظمِ مکمل !

مقصودؔ بھی ہے تیری قِرَاءَت کا طلب گار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]