تمام نبیوں میں شاہِ طیبہ کا مرتبہ ہے بلند و بالا

درود پڑھتے ہیں ان پہ ہر دم، مسبّحانِ ملاءِ اعلیٰ

ہے گوشہ گوشہ جہاں کا روشن، دلوں کی دنیا بھی ہے منور

اس آفتابِ ہدیٰ کے صدقے، کہ جس کے دم سے ہے سب اجالا

بہ موجِ گردابِ بحرِ ظلمت، پھنسی تھی نوعِ بشر کی کشتی

خدا کی جانب سے ناخدا بن کے اس نے کشتی کو آ سنبھالا

خدائے واحد کے آستاں پر، خدا کے بندوں کا سر جھکایا

خدا کے دیں کا اسی کے ہاتھوں، ہوا زمانہ میں بول بالا

لباسِ شاہی، نہ مال و دولت، نہ کوئی حاجت، نہ کوئی درباں

مطاعِ شاہانِ ذی وجاہت ہے پھر بھی دیکھیں وہ کملی والا

ہزاروں تارے ہیں نور افشاں، کوئی زیادہ تو کوئی مدھم

وہ ماہِ تاباں ہے گرد اس کے ہے کیا ہی دلکش وسیع ہالا

پسندِ خاطر ہے اپنے رنگوں کا رنگِ معروف صبغت اللہ

نہیں وہ خاطر میں اس کو لاتا، ہے کون گورا، ہے کون کالا

حطیمِ کعبہ میں بھی نہیں ہیں، نہ امِ ہانی کے گھر فروکش

یہ آج کی شب ہے کون سی شب؟ کہاں گئے ہیں حضورِ والا

وہ مردِ میداں، بلند ہمت، وہ شیر افگن، جری سپہ گر

دمِ نبرد اس سے منہ کی کھائی، پڑا جو دشمن کو اس سے پالا

نماز و روزہ، زکوٰة و حج کی عبادتیں ہیں اسی کا صدقہ

خدا کی تسبیح پڑھنے والے یونہی تو جپتے ہیں اس کی مالا

کرے مقدر پہ ناز اپنے، ملے خوشی کا اسے خزانہ

قبول فرما لیں گر نظرؔ کا یہ ہدیۂ نعت شاہِ والا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]