تو سنگِ درِ یار سلامت ہے ، جبیں بھی؟

گویا کہ فسانے میں بڑے جھول رہے ہیں

تم محوِ تکلم جو نہیں ہو تو یہ کیا ہے

اشعار بھلا کس کی زباں بول رہے ہیں

آواز کھنکتی ہے سماعت میں ابھی تک

الفاظ ابھی کان میں رس گھول رہے ہیں

تُم درجہ ِ احسان کی تکمیل ، مجسم

ہم دستَ طلبگار ہیں ، کشکول رہے ہیں

بانہوں سی کشادہ ہیں طلسمات کی شاخیں

ہم دشتِ خرابات میں پر تول رہے ہیں

در یوزہ گرِ عشق کی تقدیر کے صدقے

وہ ذائقے چکھے ہیں کہ انمول رہے ہیں

عریاں ہوا جاتا ہے کوئی واقعی ناصر

یا بندِ قباء شمس و قمر کھول رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]