تھا سکوں نا آشنا جو دل اسے اب چین ہے

جب سے مصروفِ ثنائے سرورِ کونین ہے

آمنہ بی کا جگر گوشہ ہے نورِ عین ہے

جانِ عبد اللہ، جدِّ امجدِ حسنین ہے

عرش کا تارا وہ سب کا قرۃ عینین ہے

بندۂ محبوبِ یزداں ہے شہِ کونین ہے

وہ شہنشاہِ ہدیٰ ہے ہادی نجدین ہے

قبلۂ اہلِ جہاں ہے کعبۂ دارین ہے

اس کی آقائی مسلّم ہے ہمیشہ کے لئے

ہاں نہ مانے گا وہی جو دَر حجابِ رَین ہے

وہ مہِ تاباں کہ چمکا تھا سرِ فاراں کبھی

نور افشاں بارک اللہ تا سرِ قطبین ہے

چھوڑنا دامن نبی کا ہے خدا کو چھوڑنا

ربطِ واحد خالق و مخلوق کے مابین ہے

فرش پر بستر ہے اس کا ہے غذا نانِ جویں

کرّ و فر سے مجتنب وہ سرورِ کونین ہے

واہ وہ ساتھی کہ جس کا چولی دامن کا ہے ساتھ

غار کی خلوت میں بھی وہ واحد الاثنین ہے

دیدنی ہے اوجۂ تقدیرِ صدیقؓ و عمرؓ

بعد مردن بھی نبی سے قربتِ شیخین ہے

مل گئی سارے زمانے کی شہنشاہی اسے

اے نظرؔ جو بہرہ مندِ صدقۂ نعلین ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]