جبینِ خامہ حضورِ اکرم کے سنگِ در پر جھکائے راکھوں

حسین لفظوں کی کہکشائیں برائے سرور سجائے راکھوں

قلم سے نوشابۂ عقیدت ہمیشہ جاری رہے الٰہی

ازل کی تشنہ سماعتوں کو جمیل ساغر پلائے راکھوں

اگرچہ شایانِ شانِ پاپوشِ پائے اقدس نہیں ہیں لیکن

یہ آرزو ہے کہ ان کی راہوں میں اپنی پلکیں بچھائے راکھوں

ندامتوں سے نظر اٹھانا محال ہے ان کے آستاں پر

سنہری جالی کی خوشنمائی پہ کیسے نظریں جمائے راکھوں

مرا تصور رہے ہمیشہ قدومِ آقا میں دست بستہ

میں اپنی سوچوں کو باندیاں کر کے سنگِ در پر بٹھائے راکھوں

تمہاری لطف و کرم کی عادت نے میرے کانوں میں کہہ دیا ہے

چراغِ امید اپنی آنکھوں کے طاقچوں میں جلائے راکھوں

نعوت رکھنا مرے کفن میں مرے وصایا میں درج کر لو

لحد میں آئیں جو شاہِ عالم تو ان کو پڑھ کر سنائے راکھوں

تصوراتی حرا ہو اشفاقؔ میرے سینے کے بام و در میں

حریمِ دل کے گداز گوشوں میں ان کی صورت بسائے راکھوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]