جن کے صدقے قلب و جاں شاداب ہیں

وہ مرے مرشد شہہ نواب ہیں

ذات ان کی آفتابِ معرفت

ان کے قدموں میں پڑے مہتاب ہیں

اے شہ نواب اے جان جمال

آپ پر قربان شیخ و شاب ہیں

ہیں سبیلِ خیر چشمانِ کرم

اور لب ، لطف و عطا کے باب ہیں

وقف ہو دل کا جہاں ان کے لیے

عشق مرشد کے یہی آداب ہیں

اہل دل کرتے ہیں روضے کا طواف

عقل والے محو استعجاب ہیں

خاندانِ پاک ہے وہ آپ کا

جس کا صدقہ منبر و محراب ہیں

تیرے در کے بوریے کے سامنے

سر خمیدہ اطلس و کمخواب ہیں

تیرے کوئے ناز کے سنگ و خذف

تاج سر ہیں ، غیرت زر ناب ہیں

دیجئے اذنِ حضوری دیجئے

کب سے ہم بے چین ہیں بے تاب ہیں

آپ کی چشم کرم کا فیض ہے

جو صدف سے کانپتے گرداب ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]