جو دانشور خزاں کو بانجھ کہتے تھے وہ جھوٹے تھے
خزاں کا آئینہ ٹوٹا تو ہر کرچی میں بُوٹے تھے
یہیں جُھلسے ، بدن چٹخے ، یہیں پیاسوں نے جاں دی تھی
اسی صحرا سے آبِ سرد کے چشمے بھی پُھوٹے تھے
درِ زنداں کھلا ، ہم آئے باہر ، تو کھلا ہم پر
وہی زنداں کا موسم تھا کہ جس موسم میں چُھوٹے تھے
مہِ سوزاں سے آنکھیں سینکنے والوں نے کب دیکھا
شبِ مہتاب کے آنگن میں تارے ، کتنے ٹُوٹے تھے
یہ تیرا شہر ، میری عمر کو واپس نہ کر پایا
جو ماہ و سال تیرے شہر کی گلیوں نے لُوٹے تھے
تمہیں انکار گلشن میں قدم تم نے نہیں رکھا
میں کیسے مان لوں کلیاں غلط تھیں ، پھول جُھوٹے تھے
نظر ڈالی جو دل کے گلستاں پر مہرؔ تو دیکھا
کہ ساری کیاریوں میں دھول تھی ، گُل تھے نہ بُوٹے تھے