جو دیکھا کرتا تھا صد ہزاراں برس سے جبریل اِک ستارہ

وہ بخششِ عام کا وسیلہ ، وہ رحمتِ کُل کا استعارہ

شرَف سے عاری ہے زندگانی ، عمل سے محروم فردِ عصیاں

نیازِ مدحت کا سبز کاغذ کرے گا پُورا مرا خسارہ

بَلا کی سرکش ہے موجِ دریا ، خطَر فزوں ہے مگر مجھے کیا؟

خیالِ شہرِ نوید پروَر اُڑا کے لے آئے گا کنارہ

چلا ہُوں جاءوک کے سہارے ، بہ سُوئے شہرِ شفیع اعظم

وہیں سے ہو گی گُلو خلاصی ، وہیں سے ہونا ہے اِک اشارہ

وہ بے نیازِ خیالِ امروز و خود کفیلِ سوالِ فردا

جو مژدہ یابِ عطائے پیہم ہے ، جس کو تیرے کرم کا چارہ

ابھی تو ہُوں وقفِ بیقراری ، بہ آہِ سوزاں ، بہ اشکِ لرزاں

چلے گی جب بادِ کوئے رحمت ، بجھے گا فرقت کا تب شرارہ

ورَق ورَق پر کتابِ ہستی میں ، ایک ہی حرف مُرتسَم ہے

اُسی کی باتیں ہیں زیرِ عنواں ، ہے جس کا عنوان پر اجارہ

خیالِ تمثیل کی حدوں سے ورا ہے مقصودؔ اُس کی مدحت

وہ زلفِ والیل صبح پروَر ، وہ نقشِ نعلین ماہ پارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]