جو سیلِ اشک رُک جاتا سرِ مژگاں تو اچھا تھا

ڈبو دیتا ہمیں یہ موجۂ طوفاں تو اچھا تھا

اضافہ کر دیا پرسش نے زخمِ دل کی ٹیسوں میں

نہ کرتے وہ ہمارے درد کا درماں تو اچھا تھا

نہ ذہن و دل پہ یہ افسردگی سایہ فگن ہوتی

بھلا دیتا جو ماضی کو دلِ ناداں تو اچھا تھا

مصائب بعد میں جب سامنے آئے تو یہ سوچا

تجھے پہلے سمجھ لیتے غمِ دوراں تو اچھا تھا

انہیں تنقید کا موقع فراہم کر دیا ہم نے

نہ کہتے ان سے رودادِ غمِ پنہاں تو اچھا تھا

ہمیں ان احتیاطوں نے کہیں کا بھی نہیں رکھا

جنوں میں چاک کر لیتے اگر داماں تو اچھا تھا

سحرؔ یوں مشتہر ہوتا نہ افسانہ محبت کا

کہانی کو نہ دیتے وہ کوئی عنواں تو اچھا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]