جو لکھنا ہے اسے توصیفِ شبّر

پئے تعظیم خامہ ہے نگوں سر

پسر وہ فاطمہؓ کا نیک اختر

حسینؓ ابنِ علیؓ سبطِ پیمبر

حسین ایسے کہ حسن ان پر نچھاور

نگاہِ عشق قرباں ہر ادا پر

گلِ عارض مہکتے دو گلِ تر

لبِ خنداں ہیں یا یاقوتِ احمر

گریباں میں چھپے گر صبحِ انور

پنہ زلفوں میں لے شامِ معطر

درِ دولت کا کیا کہنا وہاں پر

فرشتے بھی کھڑے رہتے تھے اکثر

محمد مصطفیٰ کے وہ تھے دلبر

کہاں سے آئے کوئی ان کا ہمسر

رہے ان کے ہی زیرِ سایہ اکثر

سرایت کر گیا سب خلقِ اطہر

شباب آیا تو نکلے وہ قد آور

جھکے تعظیم کو سر و صنوبر

قدم بوس ان کا تھا بختِ سکندر

عطائے رب زہے اوجِ مقدر

سراپائے وفا وہ صبر پیکر

وہ مردِ متقی دل کا تونگر

شہادت گاہِ الفت کا سپہ گر

شجیع و شیر دل مردِ دلاور

مصافِ حق کا وہ دلدوز منظر

شہیدِ راہِ حق اللہ اکبر

کیا جامِ شہادت نوشِ جاں اف

جو پیاسے تین دن سے تھے برابر

انہیں پانی کی حاجت بھی کہاں تھی

لگا ہونٹوں سے تھا جب جامِ کوثر

سلامِ خادمانہ سب کا پہنچے

محمد اور آلِ مصطفیٰ پر

خلافِ حق جو ان کے منہ کو آئے

وہ ظالم وہ سیہ رو وہ ستم گر

جہنم کا وہ ایندھن تا ابد ہیں

رہی دنیا تو اس میں خوار و ابتر

پڑا گردن میں ان کی طوقِ لعنت

نحوست ہی نحوست ان کے اوپر

ملا جو درس ہے ابنِ علیؓ سے

وہ بابِ عشق میں ہم سب کو رہبر

نہ آئے آنچ دیں پر جان جائے

پئے خوشنودی خلاقِ اکبر

برائے حق ستیزہ کار ہونا

برائے دینِ حق سب کچھ نچھاور

نہ کام آئے منال و مالِ دنیا

خدا اعمال پوچھے روزِ محشر

یہ دنیا کیا فقط ہے دھوپ چھاؤں

تماشہ دیکھنا ہے اس کا دم بھر

پڑھیں جب داستانِ کربلا کو

جو اسوہ ان کا ہے اس پر نظرؔ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]