جہانِ فتنہ و شر میں وہ گونجا خطبۂ خیر

ظلامِ ظلم و ستم میں وہ چمکا جلوۂ خیر

افق افق پہ ہے اب بھی وہ روشنی کی دلیل

شبِ ربیع جو ابھرا تھا ایک لمعۂ خیر

جہانِ زیر و زبر میں وہ کلمۂ تمجید

بلا کے قحطِ صدا میں قسیمِ جذبۂ خیر

فلاحِ نوعِ بشر ہے انہی کے در سے جڑی

ہے خیر بارِ دوعالم انہی کا اسوۂ خیر

چلو چلو کہ شہِ دو سرا کی رہ پہ چلیں

نشانِ فوز وہی ہیں وہی ہیں قدوۂ خیر

رجالِ خیر بھی کرتے ان کے در کا طواف

وہی ہیں جانِ محبت وہی ہیں کعبۂ خیر

انہی کا قول ہے فیصل، عمل انہی کا ہے تام

کتاب ان کی ہدایت وہی صحیفۂ خیر

بلند بخت تھے انساں جو ان کے ساتھ رہے

خوشا وہ عصرِ منوّر زہے زمانۂ خیر

ظفر ازل سے ہے خانہ زادِ آلِ عبا

رہے گا تا بہ ابد ہی گلے میں حلقۂ خیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]