حضور آئے بہاروں پر عجب رنگِ بہار آیا

حضور آئے رُخِ ہستی پہ اک تازہ نکھار آیا

حضور آئے مہ و خورشید تارے جگمگا اُٹھے

حضور آئے تو ہر ذرّہ مثالِ زر نگار آیا

حضور آئے تو خوشبوؤں کے نافے کھل گئے ہر سو

ہر اک کوچہ ہر اک قریہ مہکتا مشکبار آیا

حضور آئے تو انساں نے شعورِ زندگی پایا

تو پھر تہذیبِ انساں پر عروج و افتخار آیا

حضور آئے تو دنیا میں ہوا توحید کا غلبہ

ہوئے بت سرنگوں ایمان پر تازہ نکھار آیا

حضور آئے تو شاہوں کا طریقِ خُسروی بدلا

غلاموں کو بھی ہستی کا شعور و اعتبار آیا

حضور آئے تو جاگ اُٹھا بشر کا بختِ خوابیدہ

وہ نُورِ لم یزل ہر سمت سے ظلمت اتار آیا

حضور آئے سکوں پایا جہاں کے بے سکونوں نے

ضعیفوں بے نواؤں کو قرارِ صد قرار آیا

حضور آئے تو دھرتی نے قدومِ میمنت چومے

زمیں نے وہ شرف پایا فلک کو جس پہ پیار آیا

غلامی کی سند نوری ملے اے کاش محشر میں

کہیں جو شافعِ محشر وہ میرا جاں نثار آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]