حضور! ایسا کوئی انتظام ہو جائے

سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے

نظر سے چوم لوں اِک بار سبز گنبد کو

بلا سے پھر میری دنیا میں شام ہو جائے

تجلّیات سے بھرلوں میں کاسۂ دل و جاں

کبھی جو اُن کی گلی میں قیام ہو جائے

حضور آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل

سمٹ کے فاصلہ یہ چند گام ہو جائے

حضور آپ جو ُسن لیں تو بات بن جائے

حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے

ملے مجھے بھی زبانِ بوصیریؔ و جامیؔ

مرا کلام بھی مقبولِ عام ہو جائے

مزا تو جب ہے فرشتے یہ قبر میں کہہ دیں

صبیحؔ! مدحتِ خیرالانام ہو جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]