حق بات کرنے والے سرِ دار آ گئے

راہِ خدا میں صاحبِ ایثار آ گئے

جو خوش تھے زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

بیزار ہم تھے ، زیست سے بیزار آ گئے

اس آس میں کہ آئے گا رحمت کو اُس کی جوش

ظلمت میں روشنی کے طلبگار آ گئے

بازارِ سیم و زر ہے کہ بازارِ حسن ہے

پل بھر میں دیکھو کتنے خریدار آ گئے

یہ نفرتوں کی آندھی اُکھاڑے گی شہر کو

ہر موڑ پہ چھپے ہوئے عیّار آ گئے

نکلا زباں سے لفظ جو موتی سے کم نہ تھا

سچ جُرم ہے تو مرنے کو تیار آ گئے

دستک ہی دیں کہ کھولنے کوئی تو آئے گا

مدت سے ہم قریبِ درِ یار آ گئے

ساحرؔ وہ ہوں گے بزمِ سخن میں غزل سرا

لو شام سے ہی تشنۂ دیدار آ گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]