حقیقتِ مصطفی کہوں کیا کہ اضطراب اضطراب میں ہے

شعاعیں ہر سو چمک رہی ہیں مگر وہ جلوہ حجاب میں ہے

قریبِ مے خانۂ محمد نہ ہوش باقی نہ جوش ساقی

جسے بھی دیکھو بصد عقیدت وہ مست دورِ شراب میں ہے

نفس نفس ان کا نام نامی قدم قدم سجدۂ غلامی

کلامِ مطلق میں جو لکھا ہے وہ درس میرے نصاب میں ہے

نہ سجدہ کیجیے تو عذر مستی جو سجدہ کیجیے تو جرمِ ہستی

براہِ طیبہ قدم قدم پر ثواب بھی کس عذاب میں ہے

ارادہ چاہے کہیں کا بھی ہو قدم اُٹھیں گے اُسی کی جانب

کشش یہ کیسی خدائے ذیشاں درِ رسالت مآب میں ہے

اطاعت مصطفی کا سہرا یقین و ایماں کا روح و چہرہ

کسی مسلماں کو فکر کیا ہو سوال خود ہی جواب میں ہے

تمام ولیوں کو نورِ ایماں، عقیدتِ جاں، بہارِ عرفاں

خدا ہی جانے وہ حسنِ پنہاں جو کوچۂ بو تراب میں ہے

صبیحؔ آقا کے وہ کرم ہیں کہ مجھ سے عاصی بھی محترم ہیں

مرے گناہوں کی بے حسابی حضور حق کس حساب میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]