خاک مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

ہوتی رہ مدینہ میرا غبار ہوتا

آقا اگر کرم سے طیبہ مجھے بلاتے

روضے پر صدقے ہوتا ان پر نثار ہوتا

مرمٹ کے خوب لگتی مٹی میری ٹھکانے

گر ان کی رہ گزر پر میرا مزار ہوتا

یہ آرزو ہے دل کی ہوتا وہ سبز گنبد

اور میں غبار بن کر اس پر نثار ہوتا

طیبہ میں گر میسّر دو گز زمین ہوتی

ان کے قریب بستا دل کو قرار ہوتا

بے چین دل کو اب تک سمجھا بجھا کے رکھا

مگر اب تو اس سے آقا نہیں انتظار ہوتا

وہ بے کسوں کے آقا بے کس کو گر بلاتے

کیوں سب کی ٹھوکروں میں پڑ کر خوار ہوتا

سالک ہوئے ہم ان کے وہ بھی ہوئے ہمارے

دل مضطرب کو لیکن نہیں اعتبار ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]