خوشی کی آرزو میں زندگی بھر غم کمائے ہیں

تِرا دل جیتنے نکلے تھے خود کو ہار آئے ہیں

چرانا چاہتا تھا زندگی سے جس کی سارے غم

اسی نے زندگی بھر خون کے آنسو رلائے ہیں

کبھی ہم سے محبت کا تجھے دعویٰ رہا بھی تھا

کہ ہم نے خود سے ہی یہ سارے مفروضے بنائے ہیں؟

اسی کا ذکر ہے پنہاں ، ہر اک تحریر میں میری

ردیفیں قافیے سارے ، اسی خاطر سجائے ہیں

کوئی سمجھائے بُلبُل کو , چمن سے فاصلہ رکھے

گُلُوں کے بھیس میں صَیّاد نے پھندے لگائے ہیں

اسے سب علم ہے کس کس میں تھی کتنی وفاداری

سبھی کے عہد اس نے قتل کر کے آزمائے ہیں

تمنا ہے زمانہ ٹھوکروں پر اب ہمیں رکھ لے

کہ ہم کو چوٹ کھاتا دیکھ کر وہ مسکرائے ہیں

خزاں سے کیوں ہو ناراضی ، گلہ کانٹوں سے ہو کیونکر

کہ گلشن میں شمیم اور گُل بھی بربادی ہی لائے ہیں

شبِ ظلمات میں ویران راہوں کے مسافر کو

جہاں تم ہم سفر تھے ، راستے وہ یاد آئے ہیں

سکوتِ شب میں بھی ہے اِک عجب سی نغمگی عاطفؔ

تِری یادوں کے دلکش گیت خاموشی نے گائے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]