دست نازک سے جو پردے کو سنوارا تم نے

میں یہ سمجھا کہ نوازش سے پکارا تم نے

کیا حقیقت میں غم عشق سے مانوس ہوئے

یا یوں ہی پوچھ لیا حال ہمارا تم نے

میرے مکتوب محبت مجھے واپس دے کر

کر لی تو ہے یہ محبت بھی گوارا تم نے

نسبتاً آج حجابوں میں اضافہ کیسا

غالباً جان لیا دل کا اشارا تم نے

دور ماضی کے حسیں گیت سنا کر اکثر

اور بھی درد محبت کو نکھارا تم نے

رفتہ رفتہ نہ بھڑک جائے وہ شعلہ بن کر

رکھ دیا ہے جو مرے دل میں شرارہ تم نے

حیف صد حیف کہ دنیائے طرب میں کھو کر

کر لیا درد کے ماروں سے کنارا تم نے

اشک کہتے ہیں کہ پڑھ پڑھ کے جلیؔ کی غزلیں

دل میں محسوس کیا درد کا دھارا تم نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]