دم بخود ہے مہر شاہِ دوسرا کو دیکھ کر

چاند بھی حیرت میں ہے بدرالدجیٰ کو دیکھ کر

زندگی کے راستے میں ہم بھٹک سکتے نہیں

ہم سفر کرتے ہیں ان کے نقشِ پا کو دیکھ کر

ان کے اندازِ تکلم کی مثالی شان ہے

کْفر، ایماں میں ڈھلے حسنِ ادا کو دیکھ کر

ڈھونڈنے نکلی تھی مثلِ مصطفیٰ چشمِ خرد

لوٹی با حسرت مگر ارض و سما کو دیکھ کر

غیر کے در پر مجھے جانے کی حاجت ہی نہیں

مطمئن ہوں آپ کے دستِ عطا کو دیکھ کر

اے شہِ کون و مکاں للہ اک چشم کرم

دل ہے آزردہ زمانے کی ہوا کو دیکھ کر

طائرِ دل خوش ہوا ہے کس قدر میرا نہ پوچھ

سرورِ کونین کے باغِ ثنا کو دیکھ کر

اے شہِ کونین کی لختِ جگر اے سیدہ

رشک کرتی ہے حیا تیری حیا کو دیکھ کر

حیرتوں میں ہیں سلاطیں دم بخود اہلِ حشم

سرورِ کونین کے در کے گدا کو دیکھ کر

جذب کر لے گا حرارت اپنے سینے میں مجیبؔ

آفتابِ حشر بھی اُن کی ردا کو دیکھ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]