دو قدم کا فاصلہ ہے بس شکستِ فاش میں

ماری جاوں گی میں اک دن عشق کی پاداش میں

تو پہاڑی سخت جاں ،میں لاڈلی اور بدمزاج

فرق تو ہونا تھا آخر طرز بود وباش میں

آدھا ٹکڑا کھا کے اس نے دے دیا آدھا مجھے

کتنا میٹھا بھر گیا تھا سیب کی اس قاش میں

میری تاریکی نے یہ باور کرایا ہے مجھے

ہر ستارہ ڈوب جاتا ہے کہیں آکاش میں

جب سے اس کے گھر میں پیدا ہوگئی ہیں بیٹیاں

کچھ حمیت جاگ اٹھی گاوں کے عیاش میں

ایسا لگتا ہے کہ جنت رب نے نیچے بھیج دی

وادی ء کشمیر میں کچھ وادی ء کیلاش میں

شاہ اور ملکہ سے میرا دل جڑا ہے اس لیے

صرف دو پتے بچا رکھے ہیں میں نے تاش میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]