دیارِ یار گیا ، انتظارِ یار گیا

گیا وہ یار گیا ، مدتوں کا پیار گیا

وہ صبحِ عشق کی شبنم وہ شام کا شعلہ

وہ رشکِ سرو و سمن ، رونقِ بہار گیا

وہ جس کے حسن میں شوخی تھی موجِ دریا کی

مچلتی ناچتی لہروں کے ہم کنار گیا

وہ میرا دوست ، مرا آشنا مرا محبوب

وہ جس کے ساتھ محبت کا کاروبار گیا

وہ تند خو ، وہ مرا مہرباں ، ستم آرا

مرا قرار ، مرا دشمنِ قرار گیا

بس ایک بار وہ آیا اور اُس پہ یہ عالم

کہ جیسے آیا نہیں اور ہزار بار گیا

تڑپ رہی ہے فضا میں صدائے آوارہ

ابھی ابھی کوئی منصور سوئے دار گیا

اب اُن سے تذکرۂ ہجرِ یار کیا کیجے

نہ جن کا یار گیا ہے ، نہ جن کا پیار گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]