دیدار کی چاہت ہے در پر ترے لے آئی
ہے چشمِ طلب آقا درشن کی تمنائی
جائے گا کہاں چھوڑ کے دہلیز تری آقا
قسمت تری دہلیز پہ اک بار جسے لائی
کیوں رشک نہ ہو اس کو قسمت پہ اسے اپنی
ہو نعت نبی لب پر محفل ہو یا تنہائی
قرباں دل و جان سے ہے آقا پہ جو انسان
نادان سمجھتے ہیں کہ سودائی ہے سودائی
جھولی بھریں اس در سے شاہ و گدا آقا
دل وارثیؔ تڑپے ہے ہو شرف جبیں سائی