دے اس عدم نژاد مقدر کو بھی نمود

اے رونقِ بہارِ گُلتسانِ ہست و بُود !

کیا اوجِ لا شریک تھا معراج کا سفر

گردِ رہِ یقیں تھی امکاں گہِ صعود

تجھ ہی سے فیض یاب فقیرانِ بے نوا

تیرے ہی ریزہ خوار یہ سب صاحبانِ جُود

جس میں ثنا کی کشتئ قرطاس ہے رواں

کتنی سخن نواز ہے احساس کی یہ رُود

تیری ادائے ناز کا پرتَو ہے بندگی

تجسیمِ حرفِ نعت ، مرے قعدہ و سجود

آئی ہے ترے شہر سے ہو کر نسیمِ صبح

گُلشن میں بانٹتی ہُوئی خیراتِ مُشک و عُود

احرام پوش ہیں مرے جذبوں کے زاویے

جب سے حریمِ شوق میں ہے نعت کا ورود

احساسِ عجزِ تھا مرے حرف و بیان کو

دل محوِ شوقِ نعت رہا ، اس کے باوجود

طاقِ خیال میں ہے فروزاں چراغِ نعت

ہالے میں نُور کے نہیں آلودگیٔ دُود

نسلوں سے انسلاکِ عقیدت ہے استوار

تجھ پر سلام اور تری آل پر درود

مقصودؔ اُس کریم کی بندہ نوازیاں

شوقِ سخن کو بخشا گیا نعت کا خلود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]