رفرفِ فکر جو شاہ کی چوکھٹ پر جاتا ہے

در پر دید کی پیاسی آنکھیں دھر جاتا ہے

موت کو سچی مات سے واقف کر جاتا ہے

آقا کی ناموس پہ جس کا سر جاتا ہے

گردِ نعالِ شاہِ امم کا تحفہ پا کر

کاہکشاں کا چہرہ خوب نکھر جاتا ہے

سخت کٹھن ہے دو دھاری تلوار پہ چلنا

قلم سے لرزه اور نہ دل سے ڈر جاتا ہے

روح کا پنچھی رہ جاتا ہے طیبہ میں

زائر خالی پنجره لے کر گھر جاتا ہے

کاسہ لیسی کی نوبت آنے سے پہلے

طیبہ میں کشکولِ گدائی بھر جاتا ہے

کارِ ثنا کے لائق ہے اشفاق کہاں

لیکن پھر بھی حسبِ محبت کر جاتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]