رنجِ انکار اٹھائیں گے نہیں

سلسلہ اور بڑھائیں گے نہیں

موت کی دوسری کوشش پر لوگ

مرنے والے کو بچائیں گے نہیں

باز رہیے ابھی انگڑائی سے آپ

ورنہ تصویر میں آئیں گے نہیں

کیسے فطرت سے بغاوت کر لیں

خاک ہیں خاک اڑائیں گے نہیں

ہم اگر تیرا بھرم رکھ بھی لیں

لوگ لوگوں سے چھپائیں گے نہیں

ہم پلٹتا ہوا دیکھیں گے تمہیں

ہم چراغوں کو بجھائیں گے نہیں

فائدہ ترکِ مراسم کا فراغؔ

ہم اسے بھول تو پائیں گے نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]