روز دیتا ہے جنوں میرا ، دہائی صاحب

موجۂ ہجر نے پکڑی جو کلائی صاحب

ہو نہ ہو یہ کسی دشمن کا کِیا لگتا ہے

ورنہ مقتل تو سجاتے نہیں بھائی ، صاحب

اپنی سوچوں کو بدلنے سے سماں بدلے گا

ٹھہرے پانی پہ تو جم جاتی ہے کائی صاحب

تھا ہُنر میرا کہ محفوظ رکھا آئینہ

ورنہ لمحوں نے بہت دھول اُڑائی صاحب

سننے والوں کی سماعت پہ کڑے پہرے تھے

کیا قیامت تھی کہ جو دل نے اُٹھائی صاحب

یہ بھی آدابِ محبت تھے نبھائے کومل

جب ترا ہجر پکارا ، کہا آئی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]