رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا

واپسی کے رستے میں ہمسفر نہیں ملتا

شہر ہے یا خواہش کی کرچیوں کا صحرا ہے

بے خراش تن والا اک بشر نہیں ملتا

ہر طرف ضرورت کی اک فصیلِ نادیدہ

بے شگاف ایسی ہے جس میں دَر نہیں ملتا

قہقہوں کے سائے میں بے بسی کا عالم ہے

مرگِ آدمیت کو نوحہ گر نہیں ملتا

انقلابِ دنیا نے زاویے بدل ڈالے

تذکروں میں ماضی کے اب مفر نہیں ملتا

جس کے در دریچے سب دل گلی میں کھلتے تھے

عہدِ نو کے قصوں میں وہ نگر نہیں ملتا

رات دن الجھتے ہیں بے نشان رستوں سے

خواہشوں کے جنگل میں سُکھ نگر نہیں ملتا

حرف معتبر ہوں تو اک روشنی سی دیتے ہیں

کاغذوں کو اب ورنہ آبِ زر نہیں ملتا

نم تو ہونا پڑتا ہے رنگ و روپ کی خاطر

خاکِ ریزہ ریزہ کو کوزہ گر نہیں ملتا

وقت روٹھ جاتا ہے انتظارِ پیہم سے

گھر سے جانے والوں کو پھر سے گھر نہیں ملتا

ق

بام و در تو ملتے ہیں سب اسی جگہ قائم

چاہتوں کے آنگن میں اک شجر نہیں ملتا

گمشدہ سی گلیوں کے آشنا سے گوشوں میں

آہٹوں سے کھل جائے ایسا در نہیں ملتا

ساتھ لے گئے تھے تم عہدِ خوش نظر میرا

تم تو مل گئے آخر، وہ مگر نہیں ملتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]