زباں نے جب بھی شہِ بحر و بر کا نام لیا

تو روئے حرف مرا روشنی نے تھام لیا

کروں میں ان کی کریمی پہ دو جہاں نثار

عدو سے بھی نہ کبھی جس نے انتقام لیا

دیارِ طیبہ میں گوشہ نشینی جس کو ملی

اسی کے قدموں نے روئے زمیں کو تھام لیا

کنارِ چشم اک اشکوں کا چشمہ پھوٹ پڑا

درِ رسول کا جب آخری سلام لیا

وہ کامیاب ہوا زندگی کی راہوں میں

عصائے عشقِ محمد کو جس نے تھام لیا

نکما شخص تھا مظہرؔ عمل سے خالی تھا

ثنائے آلِ محمد سے اس نے کام لیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]