زمیں کو ناز ہے اس جا جہاں ہے نقش پا تیرا
جدا ہے شان تیری اور جدا ہے مرتبہ تیرا
جہاں ملتی ہے سیرابی ہماری تشنہ کامی کو
جہاں جاری ہے چشمہ فیض کا صبح و مسا تیرا
تو ہی محبوب حق مطلوب حق مرغوب حق بھی ہے
تعارف پیش میں کیسے کروں صل علیٰ تیرا
منور ہے ترا نقش قدم عرش معلی تک
ابھی تک لمس کا حامی ہے وہ غار حرا تیرا
تری توصیف ہے مرقوم سب اوراق قرآں میں
کلام پاک میں ہے خود ثنا خواں کبریا تیرا
خدا کے ساتھ تیرا نام لیتا ہے سدا محشرؔ
بہت برتر ہے سب سے مرتبہ بعد خدا تیرا