زہر کی ہے یہ لہو میں کہ دوا کی تیزی

دل کی رفتار میں آئی ہے بلا کی تیزی

اُس کے چھونے سے مرے زخم ہوئے رشکِ گلاب

بس گئی خون میں اُس رنگِ حنا کی تیزی

بھاوٴ بڑھتے ہی گئے عشقِ طلب گار کے اور

راس آئی اُسے بازارِ وفا کی تیزی

پھر کسی رخصتِ تازہ کی خبر دیتی ہے

سرد موسم کے تناظر میں ہوا کی تیزی

صرف ہونٹوں سے جو نکلے تو صدا ہے رسمی

دل سے نکلے تو ہے برّاق دعا کی تیزی

شہر عادی ہے یہ سرگوشیاں سننے کا ظہیرؔ

کہیں بھونچال نہ بن جائے صدا کی تیزی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]