زیست گھبرائی ہے، شرمائی ہے، لہرائی ہے

کوئی پیغام مدینے سے صبا لائی ہے

دل کی حالت ہے کہ اب ضبط میں رہنے سے رہا

روح بھی جسم کے آنگن میں نکل آئی ہے

روشنی حدِ نظر پھیل گئی ہے دِل میں

حیطۂ شوق میں وہ زُلف جو لہرائی ہے

ایک پیرائے میں بیتی ہے مری عمر تمام

دل فقط مدحِ محمد کا تمنائی ہے

عشق کے دل میں ترے اسم کی پیہم تاثیر

حسن کی آنکھ کا معبد تری زیبائی ہے

خَلق کی نعت تو بس حیلہ ہے، اک چاہت ہے

تیرے شایاں تو فقط حق نے ہی فرمائی ہے

ایک ہی اپنا وظیفہ ہے درود اور سلام

ایک ہی رمز ہے مرشِد نے جو بتلائی ہے

عقل محدود ہے اور عشق کی حد ہے واللہ

بخدا دونوں سے آگے تری پہنائی ہے

تو ہے اور سانسوں سے مربوط ہے مدحت تیری

یہ ہی شنوائی ہے، گویائی ہے، بینائی ہے

زندگی ویسے تو ہے عجزِ مکمل مقصودؔ

ہو کے طیبہ سے جو آئی ہے تو اِترائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]