ساغر کو تیرے نام کیا اور رو لیے

خود کو نذرِ جام کیا اور رو لیے

گُل پھر چراغِ شام کیا اور رو لیے

ہم نے یہ اہتمام کیا اور رو لیے

ہم نے سحر کو شام کیا اور رو لیے

یہ دن بھی تیرے نام کیا اور رو لیے

یوں بھی ملے ہیں اُن سے تصور میں بارہا

ہم نے انہیں سلام کیا اور رو لیے

اشکوں سے لکھ دیا ہے شبِ غم کا ماجرا

خط ہم نے یوں تمام کیا اور رو لیے

اپنی ہنسی بھی ہم نے اُڑائی ہے اس قدر

تیرا بھی احترام کیا اور رو لیے

دستک کی آج دل کو جسارت نہ ہو سکی

در سے ترے کلام کیا اور رو لیے

ان کے خطوط رکھ کے سرہانے شبِ فراق

قاصد کو پھر سلام کیا اور رو لیے

ناصرؔ انہی کے حکم پہ چھوڑا ہے شہر کو

صحرا میں پھر قیام کیا اور رو لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]