(سانحہ گیارہ ستمبر کی تیسری برسی پر)

مری ہمنوائی میں جب تلک مرے یارِ عربدہ جُو نہ تھے

پسِ پردہ سب تھے حریفِ جاں، کبھی روبرو تو عدو نہ تھے

گو خبر تھی اہلِ نظر کو سب، پہ بھرم تھا پھر بھی جہان میں

تہی دامنی کے یہ تذکرے کبھی زیبِ قریہ و کُو نہ تھے

مرے دوستوں کے وہ مشورے، صفِ دشمناں کے یہ فیصلے

تھے اگرچہ دونوں الگ الگ، کبھی مختلف سرِ مو نہ تھے

یہ ستم طرازیِ وقت ہے کہ ہماری غفلتِ بے اماں

وہی پاسبانِ حرم ہیں اب جو شریکِ کلمۂ ہُو نہ تھے

اک ادائے نفرتِ بے محل مرا اعتبار گنوا گئی

مرے ہم پیالہ و ہم نشیں، مرے تشنگانِ لہو نہ تھے

تھے ہمیشہ در پئے مال و زر، پہ اثاثِ دل پہ نظر کریں؟

اربابِ ظلم کے حوصلے تو بلند اتنے کبھو نہ تھے

وہی ہاتھ جن کو جنون تھا تزئینِ حسنِ بہار کا

وہ قلم ہوئے اِسی جرم میں کہ اسیر رسم غلو نہ تھے

سبھی ہو گئے کہیں در بدر، کہیں کھو گئے مرے خوش نظر

میں کہاں سے لاؤں وہ نقش گر جو بہارِ گل کا نمونہ تھے

یہ شہیدِ جلوۂ آگہی جنہیں تیرے درد نے چن لیا

وہی کشتگانِ خمار ہیں جو قتیلِ جام و سبو نہ تھے

جو نبردِ عشق میں کٹ گئے یا حضورِ ناز میں جھک گئے

وہی سر بلند رہے سدا جو ظہیرؔ بارِ گلو نہ تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]