ستمگروں کے ستم کی اڑان کچھ کم ہے

ابھی زمین کے لیے آسمان کچھ کم ہے

جو اس خیال کو بھولے تو مارے جاؤ گے

کہ اپنی سمت قیامت کا دھیان کچھ کم ہے

ہمارے شہر میں خیر و عافیت ہے مگر

یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے

بنا رہا ہے فلک بھی عذاب میرے لیے

تیری زمین پہ کیا امتحان کچھ کم ہے

ابھی شمار کے قابل زخم دل میرے

ابھی وہ دشمن جاں مہربان کچھ کم ہے

ادھر تو درد کا پیالہ چھلکنے والا ہے

مگر وہ کہتے ہیں یہ داستان کچھ کم ہے

ہوائے وقت ذرا پیرہن کی خیر منا

یہ مت سمجھو کہ پرندوں میں جان کچھ کم ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]