سستا خرید لو کبھی مہنگا خرید لو

میلہ لگا ہے ، مرضی کا سودا خرید لو

رستہ تمہیں نہ دے گی یہ تنہائیوں کی بھیڑ

اک ہم سفر خرید لو ، سایا خرید لو

اک پھول ، اک ڈھلکتے ہوئے اشک کے عوض

چاہو تو میرے پیار کی دنیا خرید لو

بھاؤ بتا رہی ہے یہی بانسری کی تان

جاں دے سکو تو ہیر جی ، رانجھا خرید لو

دو بول بھی پڑھا کے ملے کب دلوں کے مِیت

بولی لگا کے اچھا سا دھوکہ خرید لو

انساں تو پیار کر کے بھی رکھتے ہیں اختلاف

بہتر یہی ہے تم کوئی کُتا خرید لو

اپنے ہر اک حریف کو دوزخ میں جھونک دو

سستا لگا ہے کُفر کا فتویٰ خرید لو

اک نوکری میں گھر کہاں چلتا ہے آج کل

دفتر کے بعد وقت ہے رکشا خرید لو

پڑھ لکھ گیا تو جینے کا مانگے گا حق ضرور

مہنگا ہے پھر بھی بچے کا بستہ خرید لو

آنکھوں کی پیاس کیسے بجھا پاؤ گے ظفرؔ

دشتِ بلا میں صبر کا دریا خرید لو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]