سفر حضر کی علامتیں ہیں، یا استعارہ ہے قافلوں کا

یہ شاعری تو نہیں ہماری، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا

یہ رُوپ سورج کی دھوپ جیسا، یہ رنگ پھولوں کی آنچ والا

یہ سارے منظر ہیں بس اضافی، یہ سب تماشہ ہے زاویوں کا

ہر ایک اپنی انا کو تانے دُکھوں کی بارش میں چل رہا ہے

دیارِ ہجرت کے راستوں پر عجیب موسم ہے چھتریوں کا

ہر اک شباہت میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے عکس درعکس

خود آشنائی کی حد سے آگے عجب علاقہ ہے آئنوں کا

بس اب ضرورت کی وادیوں میں قیام جیسی مسافرت ہے

چلے تھے ہم جب ظہیرؔ گھر سے تو اک ارادہ تھا پربتوں کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]