سنا، دیارِ کا سارا حال مجھے

سنا ، دیارِ کا سارا حال مجھے

ہوائے کوئے نبی مشک پر نہ ٹال مجھے

اڑا کے مجھ کو لیے چل فضائے طیبہ میں

فراق و ہجر کی ظلمات سے نکال مجھے

تمام زخمِ جگر ہوں سرُور کا باعث

اگر حضور سے مل جائے اندمال مجھے

مشامِ جان میں اتری عقیدتوں کی دھنک

دیارِ نور کا آیا ہے جب خیال مجھے

میں جان کر نہ سکا نذر ان کی چوکھٹ پر

سدا رہے گا اسی بات کا ملال مجھے

عطا کیا ہے مدینے کے شاہ نے اتنا

کہ پھر ہوئی ہی نہیں حاجتِ سوال مجھے

عروج ، مدحتِ سرکار سے ملا، ورنہ

ستائے دیتا تھا اندیشۂ زوال مجھے

حسن حسین کی الفت ہے میرا سرمایہ

عزیز جان سے ہے مصطفیٰ کی آل مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]