سنور کر پھر گئی قسمت اِسی مردِ تن آساں کی

سرِ منزل پہنچ کر گم ہوئی منزل مسلماں کی

قسم کھانے کے قابل ہے وہ سیرت ماہِ کنعاں کی

قسم کھا کر میں کہتا ہوں اسی کے چاک داماں کی

عجب قصہ ہے دونوں کی پریشانی نہیں جاتی

اِدھر قلبِ پریشاں کی، اُدھر زُلفِ پریشاں کی

ہمیں معلوم ہے سب کچھ ہمیں کیا اعتبار آئے

رقیبِ رو سیہ نے تو ہمیشہ دُون کی ہانکی

تری رحمت کے بل بوتے پہ سرزد ہو گئے مجھ سے

الٰہی لاج رکھ لے حشر کے دن میرے عصیاں کی

مہِ یثرب سے میرے ہو گئے کون و مکاں روشن

اسی روئے زمیں تک روشنی ہے ماہ کنعاں کی

ترے دیوانے بیچارے گزرگاہِ محبت میں

خبر لیں چاک دل کی یا خبر لیں چاک داماں کی

نظرؔ نیچی کیے چلتا رہا میں عمر بھر اپنی

سنی جب سے حکایت ہے نگاہِ فتنہ ساماں کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]