سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا

محفوظ وہ رہا جو دریچہ نہیں بچا

بازیگرانِ شہر سیاست ہوئے خموش

اب دیکھنے کو کوئی تماشہ نہیں بچا

کیسی چڑھی ہے دھوپ سرِ شہر بد لحاظ

برگد ہرے بھرے ہوئے سایا نہیں بچا

پھیلاؤ کی ہوس بھرے دریا کو پی گئی

پانی چڑھا تو کوئی کنارہ نہیں بچا

بجھنے لگے چراغ مرے جسم و جان میں

دل میں لہو بقدرِ تمنا نہیں بچا

اک نقشِ لالہ رنگ تو رستے کو مل گیا

بیشک ہمارے پاؤں میں جوتا نہیں بچا

لگتا ہے یوں، یا واقعی قحط الرجال ہے

لوگوں کے درمیان حوالہ نہیں بچا

اہلِ ہوس کی حاشیہ آرائی سے ظہیرؔ

تاریخ درکنار صحیفہ نہیں بچا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]