شاداں ہوں جب سے مجھ کو عطا یہ ہنر ہوا

محور سخن کا مدحتِ خیرُ البشر ہوا

اُس خیر بار عالمِ جملہ کی یاد میں

مقصودِ حرف حرف مدینہ نگر ہوا

پژمردہ زندگی مری اس دن سے جی اُٹھی

جس دن سے حرفِ نعت مرا راہبر ہوا

لب وا ہوئے نہ تھے مرے عرضی کے واسطے

خیر الورٰی کے در سے کرم پیشتر ہوا

آلِ نبی سے ہو گا مؤدت کا یہ ثمر

میں بے حساب اہلِ جناں میں اگر ہوا

ہیں مدحِ شاہِ والا کی یہ برکتیں تمام

میرا حوالہ جن کے سبب معتبر ہوا

منظر اس ایک پل میں ہی صدیاں گزر گئیں

جو پل بھی یادِ شہرِ نبی میں بسر ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]