شاہِ نواب کا گدا ہونا

تاجداروں سے ہے سوا ہونا

عشق نواب میں فنا ہونا

ہے حقیقت سے آشنا ہونا

اوڑھ کر خاکِ کوچۂ نواب

چاہتے ہو جو کیا سے کیا ہونا

ہے فنافی الرسول کا ضامن

ہستیِ شیخ میں فنا ہونا

ان کی صورت کو دیکھ کر سیکھا

صبح ہستی نے پر ضیاء ہونا

ان کے آب کرم پہ ہے موقوف

شاخ دل کا ہرا بھرا ہونا

گر ہو مقصود ان کا عکس جمال

چاہئے دل کو آئینہ ہونا

آگیا ان کی رحمتوں کے طفیل

میرے کھوٹے کو بھی کھرا ہونا

پتھروں کو گلاب کرتا ہے

ان کی چشم کرم کا وا ہونا

وہ ہیں خیر النسا کے چشم و چراغ

جان و دل سے انہی کو چاہو نا

زیب دیتا ہے آپ ہی کے لیے

سیدی! شاہ اصفیاء ہونا

زندگی میرے دل کو بخشتا ہے

یاد نواب شاہ کا ہونا

اک قیامت سے کم نہیں ہے صدف

ان کی دہلیز سے جدا ہونا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]