شکرِ خُدا کہ نعت نگہ دارِ حرف ہے

ورنہ تو حرف خود ہی سُبک سارِ حرف ہے

واللہ ، تیرے نام سے ہے آبروئے نطق

واللہ ، تیری نعت سے پندارِ حرف ہے

تُو خامہ و بیاں کی ہے آخری طلب

تُو ہی کرم نواز و شرَف بارِ حرف ہے

اِک نام ہے جو کھولتا ہے بابِ معرفت

ورنہ تو سب حجاب ہے ، دیوارِ حرف ہے

کچھ یوں ہے لفظِ حمد پہ تعلیقِ حرفِ مِیم

جیسے کہ رَأسِ اَوج پہ دستارِ حرف ہے

جو دائرہ ہے حیطۂ تمدیحِ ناز کا

اِس سے بروں تو منظرِ ادبارِ حرف ہے

’’ غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم ‘‘

مقصودؔ میرا بھی یہی اقرارِ حرف ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]