صداء کوئی نہیں اب کے ، فقط دہلیز پر سر ہے

ندامت بھی ہے ، اپنے رائیگاں جانے کا بھی ڈر ہے

مجھے تو منطقی لگتی ہے اپنی بد حواسی بھی

مجھے لگتا ہے میں ہوں آئینے میں ، عکس باہر ہے

ہزاروں ہی بھنور لپٹے ہوئے ہیں جسم سے لیکن

نگاہوں میں ابھی تک الوداع کہنے کا منظر ہے

ترستی ہیں مری پوریں در و دیوار چھونے کو

جہاں سے خواب آتے ہیں ، وہاں اک نقرئی گھر ہے

بہت ہلکا ہے سو کچھ وقت لے گا فرش ہونے میں

ہوا میں ڈولتا پھرتا ہے جو ، امید کا پر ہے

جہانِ بے نیازی میں حیات و مرگ یکساں ہیں

ترے درویش کا ہونا ، نہ ہونا اک برابر ہے

مناسب ہے کہ اب میرا بھرم بھی ٹوٹ جانے دو

مسلسل بے یقینی سے کوئی افتاد بہتر ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]