ظُلمتوں نے غُبار ڈالا ہے

تیری ضو نے نکھار ڈالا ہے

کوئی شکوہ نہیں ہے غیروں سے

’’مجھ کو اپنوں نے مار ڈالا ہے‘‘

تُو نے آ کر اُسے جِلا بخشی

جس کو دُنیا نے مار ڈالا ہے

مر کے پہنچا ہوں آپ کے در پر

بارِ عصیاں اُتار ڈالا ہے

دل کی دنیا کو میرے آقا کی

اِک نظر نے سنوار ڈالا ہے

پیکرانِ غرور کے دل سے

زنگ سارا اُتار ڈالا ہے

عاشقوں کی یہ آزمائش تھی

اُس نے پھولوں میں خار ڈالا ہے

کب کے بگڑے معاشروں کو شہا!

تُو نے آ کر سُدھار ڈالا ہے

بس گلے میں جلیلِ رُسوا کے

تُو نے عزت کا ہار ڈالا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]