عشق سچا ھے تو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں

آگ میں بھی وہ بُلائے تو لپکتے جاویں

کیا ھی اچھا ھو کہ گِریہ بھی چلے ، سجدہ بھی

میرے آنسو ترے پیروں پہ ٹپکتے جاویں

تُو تو نعمت ھے سو شُکرانہ یہی ھے تیرا

پلکیں جھپکائے بِنا ھم تجھے تکتے جاویں

دم ھی لینے نہیں دیتے ھیں خدوخال ترے

دم بہ دم اور ذرا اور دمکتے جاویں

توڑنے والے کسی ھاتھ کی اُمید پہ ھم

کب تلک شاخِ غمِ ھجر پہ پکتے جاویں ؟

شیرخواروں کے سے بےبس ھیں ترے عشق میں ھم

بول تو سکتے نہیں ، روتے بلکتے جاویں

اب تو ٹھہرا ھے یہی کام ھمارا شب و روز

دُور سے دیکھیں تجھے اور بہکتے جاویں

عشق زادوں سے گزارش ھے کہ جاری رھے عشق

بَکنے والوں کو تو بَکنا ھے ، سو بَکتے جاویں

اُس کے رُخسار بھی شعلوں کی طرح ھیں ، یعنی

دھک اُٹھیں تو بہت دیر دھکتے جاویں

فارس اک روز اِسی عطر سے مہکے گا وہ شخص

آپ چُپ چاپ فقط جان چھڑکتے جاویں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]