فرازِ فکر نہ اوجِ شعور پر ہی ہے

مرا بھروسہ فقط اسمِ نُور پر ہی ہے

سخن شناس ہوں ہرگز نہ کوئی شاعر ہوں

مرا مدار عطائے حضور پر ہی ہے

چمکتے چاند ستارے یہ کہکشاں یہ سحر

میرا خیال اسی ذکر نُور پر ہی ہے

ہماری آنکھ کا سرمہ ہے خاکِ پا ان کی

نظر ہماری سدا راہِ نُور پر ہی ہے

تری حدیث بصیرت فروغ ہے شاہا

بہشتِ گوش اسی اک سرُور پر ہی ہیں

خطا سرشت ہوں پھر بھی امید رہتی ہے

کہ لاج میری تو شاہِ نشور پر ہی ہے

گواہ طائرِ سدرہ تری بلندی پر

ترا نشانِ قدم عرش و طور پر ہی ہے

صفائے کوثر و تسنیم اور یہ زم زم

بہائے لمس زلالِ حضور پر ہی ہے

حلالِ عید چمکتا ہے اس طرح جیسے

نشان ، ناخنِ پائے حضور پر ہی ہے

ہوا ہے روح کا موسم جو آج پھر جل تھل

تری نگاہ کی برکھا سرُور پر ہی ہے

دیارِ نُور میں نوری کو بھی اجل آ جائے

مگر یہ لطف عطائے حضور پر ہی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]