فصیل شہر تمنا میں در بناتے ہوئے

یہ کون دل میں در آیا ہے گھر بناتے ہوئے

نشیب چشم تماشا بنا گیا مجھ کو

کہیں بلندی ایام پر بناتے ہوئے

میں کیا کہوں کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں

گزر رہا ہوں ابھی رہ گزر بناتے ہوئے

کسے خبر ہے کہ کتنے نجوم ٹوٹ گرے

شب سیاہ سے رنگ سحر بناتے ہوئے

پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے

کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے

مگر یہ دل مرا یہ طائر بہشت مرا

اتر ہی آیا کہیں مستقر بناتے ہوئے

دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ

سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]