قدرتِ حق کا شہکارِ قدرت اک نظردیکھ لوں دور ہی سے

بے زیارت کے بے کیف جینا میں تو باز آیا اس زندگی سے

آپ کے در پہ دھونی رمائے پھر خود آدابِ حق سیکھ جائے

بندہ پرور اگر ہو اجازت، صاف کہہ دوں میں یہ بندگی سے

لطف سجدوں کا اس وقت ہوگا، بے حجابانہ جب ُحسن ہوگا

بے محمد کے سر کو جھکانا اک تمسخر سا ہے بندگی سے

ان کی عظمت کو صدیق جانیں اور فاروق و عثمان جانیں

لذتِ عشق سرکار پوچھو، تم اویس و بلال و علی سے

زندگی میں کوئی غم نہیں ہے بعد مردن بھلا ہوگا کیسے!

میری مٹی ٹھکانے لگے گی مجھ کو نسبت ہے کوئے نبی سے

میرے تاروں کی توقیر کرنا میرے پھولوں سے تم پیار کرنا

بالیقیں کوئی مومن نہیں ہے منحرف ہے جو قولِ نبی سے

جان لیجیے کہ دینِ متیں میں خوشیاں ہی خوشیاں کیوں رونما ہیں

مصطفی والوںنے کربلا میں جانِ جاں دی ہے ایسی خوشی سے

اے صبیحؔ کیا تھا میں کچھ نہیں تھا بدتروں سے کہیں بدتریں تھا

آج حسّان کا جانشیں ہوں یعنی جو کچھ ہوں نعتِ نبی سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]