قرارِ قلبِ مضطر ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

محبت ہی سراسر ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

انہی کے روئے انور سے ہے خورشیدِ فلک روشن

ضیائے ماہ و اختر ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

بشر ہونے کا اعلاں بھی یقینا حق پہ مبنی ہے

پہ نورِ ربِ اکبر ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

چنیں پلکوں سے خاکِ پا تمنا دل میں ہے لیکن

کہاں ایسے مقدر ہیں، مکینِ گنبدِ خضریٰ

علی و فاطمہ ہوں یا کہ وہ شبیر و شبر ہوں

تمہارے سارے گوہر ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

ڈراؤ مت ہمیں ہنگامِ محشر سے ارے واعظ

شفاعت کو میسر ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

سبھی اجداد و مرشد کا ادب تسلیم ہے مجھ کو

مگر آقائے منظرؔ ہیں مکینِ گنبدِ خضریٰ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]