قلم ہے ہاتھ میں اور مدحتِ شاہِ امم ہے

ردائے عجز اوڑھے فکر میری سر بہ خم ہے

کہاں میں اور کہاں مدحت نگاری کا یہ منصب

ترے اذن و عطا سے ہی رواں میرا قلم ہے

ترا رتبہ رفعنا اور تیری بات اونچی

سرِ محشر بھی سایہ دار تیرا ہی علم ہے

شہِ کونین ہیں وہ اور ممدوحِ خدا ہیں

کلام اللہ میں بھی ذکر انکا دم بہ دم ہے

دلِ عاصی مرا رحمت طلب کرتا ہے تجھ سے

رضا اللہ کی تیری رضا سے ہی بہم ہے

وہاں کی خاک میں مدفوں ہو تم جانِ دو عالم

تبھی تو خاکِ طیبہ غازۂ روئے ارم ہے

مرادِ مصطفی ہے وہ نرالی شان والا

مرا فاروقِ اعظم پیکرِ جاہ و حشم ہے

حیا کے باغ میں پھیلی ہوئی ہے جس کی خوشبو

وہ ذوالنورین دامادِ نبی ہے محترم ہے

طریقت جس کے بابِ فیض سے جاری ہوئی ہے

علی مولا وہ بابِ علم ہے جانِ حِکَم ہے

یہ منظرؔ ہر گھڑی ہر دم فقط طیبہ پکارے

کہ اس کی فکر کی منزل ترا عالی حرم ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]